Paish Karti Hai
پیش کرتی ہے عجب حسن کا معیار غزل
لے اُڑی ہے ترا لہجہ، تری گُفتار غزل
دو دھڑکتے ہوئے دل یوں دھڑک اُٹھّے اک ساتھ
جیسے مِل جُل کے بنا دیتے ہیں اشعار غزل
جیسے مِل جُل کے بنا دیتے ہیں اشعار غزل
کوئی شیریں سخن آیا بھی، گیا بھی لیکن
گنگناتے ہیں ابھی تک در و دیوار غزل
گنگناتے ہیں ابھی تک در و دیوار غزل
میں تو آیا تھا یہاں چَین کی سانسیں لینے
چھیڑ دی کس نے سرِ دامنِ کہسار غزل
چھیڑ دی کس نے سرِ دامنِ کہسار غزل
مریمِ شعر پہ ہیں اہلِ ہوَس کی نظریں
فتنۂ وقت سے ہے بر سرِ پیکار غزل
فتنۂ وقت سے ہے بر سرِ پیکار غزل
تو نے خط میں مجھے "سرکارِ غزل" لکھا ہے
تجھ پہ سو بار نچھاور مری سرکار، غزل
تجھ پہ سو بار نچھاور مری سرکار، غزل
گھر کے بھیدی نے تو ڈھائی ہے قیامت شبنم
کر گئی ہے مجھے رسوا سرِ بازار غزل
کر گئی ہے مجھے رسوا سرِ بازار غزل
Comments