Muhabbat
بھڑکائیں میری پیاس کو اکثر تیری آنکھیں صحرا میرا چہرہ ہے سمندر تیری آنکھیں بوجھل نظر آتی ہیں بظاہر مجھے لیکن کھلتی ہیں بہت دل میں اُتَر کر تیری آنکھیں اب تک میری یادوں سے مٹائے نہیں مٹتا بھیگی ہوئی شام کا منظر ، تیری آنکھیں ممکن ہو تو اک تازہ غزل اور بھی کہہ لوں پھر اوڑھ نا لیں خواب کی چادر تیری آنکھیں یوں دیکھتے رہنا اسے اچھا نہیں محسن وہ کانچ کا پیکر ہے تو پتھر تیری آنکھیں